"ماہی گیر کے گھر پیدا ہو کر بھی میری چاہت آسمان کو چھونے کی تھی"

ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کی اپنے ملک کے تیئں خدمات بہا ہیں ہی ان کی اپنی شخصیت بھی نوجوانوں کے لے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ان کی زندگی خود نشیب و فراز کی حاصل رہی جس کے مطالعہ سے نوجوانوں کو اپنی منزلوں کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں سے لڑنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ شاید اسی لئے انہوں نے اپنی بیشتر کتابوں میں نوجوانوں کو مخاطب کیا ہے۔ پیش ہے ان کی کتاب ‘‘ ونگس آف فائر’’ کے کچھ اقتباسات۔


میری کہانی میرے ساتھ ختم ہوجائے گی کیونکہ تمہیں بھی معلوم ہے کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں نہ بیوی نہ بچے نہ کوئی جائیداد کہ جس کے تیئں میرا لگاؤ ہو،کچھ بھی میرا نہیں، میری زندگی کا فلسفہ ایک ہی ہے۔ یہ پورا ملک میرا ہے۔ بس کوشش کرتے رہو۔ جہاں تک میرے ، علم کی بات ہے،سب ایک ہیں۔ بس نام الگ ہے۔
 رامیشورم میں ایک مچھوارے کے گھر پیدا ہوا، لیکن پھر بھی چاہت آسمان میں اڑنے والے پرندوں کی طرح تھی۔ میرا پہلا مکتب میرا خاندان ہی تھا جہاں میرے والد نے مجھے یہ سکھایا کہ بھائی چارہ کیا ہے۔ میری ماں نے بتایا کہ سچائی کے لئے سب کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ میری زندگی میں شمس الدین اور جلال الدین کا تعاون انتہائی اہم تھا۔ میرے والدین سے بھی زیادہ، کیونکہ میرے لئے میرے بہنوئی اور میرے بھائی کے پاس اتنی سمجھ تھی کہ پڑھے لکھے انسان کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔
میرے والد اور ایک مقامی پنڈت میں کافی اچھی دوستی تھی۔ یہی تھا ہندوستان اور اس کی محبت جس میں بھائی چارہ اور ہم آہنگی تھی۔ آج کی طرح نہیں جو ذات پات اور مذہب پر منقسم ہے۔ میں ابوالفاخرین العابدین عبدالکلام، جس کے والد ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ جن کے پاس ایک کشتی تھی۔ میری ماں عاصمہ، وہ بھی ایک غریب خاندان کی تھیں، ہاں یہ ضرور تھا کہ خاندان کا ہاتھ بٹانے کے لئے انہوں نے بھی لام کرنا شروع کردیا تھا۔ میں نے بھی اپنی اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اخبار بیچنا شروع کیا تاکہ میں بھی خاندان کا کچھ تعاون کرسکوں۔
میں اپنے اسکول کے دنوں میں ایک عام طالب علم تھا، ہاں یہ ضرور تھا کہ اساتذہ کہتے تھے کہ میرا مستقبل روشن ہے۔ خاص طور سے علم الحساب میں۔ میں نے رامناتھ پورم سوارتر میٹریکولشن اسکول سے ہائی اسکول کیا اور مزید تعلیم کے لئے سینٹ جوزف کالج تر چرا پالی میں داخلہ لیا۔ یہ کالج مدراس یونیورسٹی سے ملحق تھا، جہاں سے میں نے 1954 میں فزکس میں گریجویشن کیا۔ حالانکہ جب گریجویشن مکمل ہونے والا تھا تب میں اپنے منختب کردہ موضوع کے تعلق سے اتنا ذیادہ پرجوش نہیں تھا۔
مجھے لگنے لگا کہ میں اپنے ان چار سال کے سبب آگے چل کر خود کو کوسوں گا۔ اس کے بعد میں مدراس چلاگیا، جہاں میں نے ایئراسپیس انجینئرنگ کی تعلیم شروع کی۔ پڑھائی کے دوران بھی میں ایک سینئر کلاس پروجیکٹ پر کام کررہا تھا، لیکن میرے اندر جوش نہیں تھا۔ ڈین اس پر کافی غصہ ہوئے اور مجھ سے کہا کہ اس پروجیکٹ کو اگلے تین دن میں مکمل کرو ورنہ میں تمہاری اسکالرشپ ختم کردوں کا اور میں نے اس کام کو تین دن میں مکمل کردیا۔
میرا خواب تھا فائٹر پائلٹ بننا اور میں نے اپنے خواب کو بہت قریب سے ٹوٹتے دیکھا تھا۔ میں کوالیفائرس کی فہرست میں ۹ ویں مقام پررہا اور صرف ۸/ لوگوں کی جگہ تھی، لیکن اس کے بعد سے ہی شروع ہوتا ہے۔ ایک عام آدمی کا سائنسدان کے طور پر میرا ڈی آرڈی او اور اسرو میں سفر تسلی بخشش تھا، کیونکہ یہیں سے تو پیدا ہوا تھا ملک کا میزائیل مین۔
ہاں، یہ نام مجھے پوکھرن دھما کے کے بعد ملا۔ یاد ہے مجھے تب سے ہی لوگوں نے میرے بارے میں جانا۔ اس کے بعد اگنی اور پرتھوی میزائل کے کامیاب تجربہ نے مجھے واقعی ‘میزائیل مین’ بنادیا۔ تب یہ لوگ پوچھتے تھے کہ میں ملک سے کیا کہنا چاہتا ہوں۔ شاید میں اس وقت اس کا جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔
ہاں’ یہ موقع مجھے تب ملا جب 2002ء میں (ملک کا) صدر بنا۔ اب یہ ٹھیک تھا میں ملک سے کچھ کہہ سکتا تھا۔ اب جب میں اپنے مکمل مقام پر ہوں تو میرا پیغام یہ ہے:

"اگر کسی بھی ملک کو کرپشن سے آزاد ہونا ہے اور خوبصورت دماغ والے ملک لے طور پرابھارنا ہے تو میرا خیال ہے کہ معاشرے کے صرف تین لوگ یہ تبدیلی کرسکتے ہیں اور وہ ہیں، والد، والدہ اور استاد۔