کامیابی کے سفر میں کوئی شارٹ کٹ نھیں ھوتا
ہر شخص کامیاب ہونا چاہتا ہے لیکن وہ اس راز سے لاعلم ہے کہ
کامیاب کیسے ہوا جائے۔ وہ ہر اس طریقہ کو سیکھنا چاہتا ہے جس سے کامیابی کی راہ
ہموار ہوسکتی ہے ۔ ہر شخص کی ذات میں کوئی خاص خوبی موجود ہء جس نے اسے ڈھونڈ لیا
اس نے کامیابی کا راز پالیا۔ آپ آج ایک
جملہ اپنی ڈائری میں لکھیں۔ آپ زندگی سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔یہی آپ کا گول ہے
اس خواہش کی تکمیل ہی آپ کی کامیابی ہے۔
اب اس جملہ کو ایسی جگہ چسپاں کردیں جہاں آتے جاتے، اٹھتے بیٹھتے آپ کی نظر اس
جملہ پر پڑتی رہے تاکہ اس خواہش کو پورا کرنے کا آپ کا عزم تروتازہ رہے۔ ہادرہے
کامیابی کا سفر آسان نہیں ہے لیکن چند باتوں پر عمل کرکے اس سفر کو آسان بنایا
جاسکتا ہے۔
جب آپ کو معلوم ہوگیا ہے کہ آپ کا گول(ہدف) کیا ہے تو اب آپ
اپنے گول سے متعلق معلومات اکٹھی کیجیے۔ یادرکھیے مطالعہ سے علم میں اضافہ ہوتا ہے
جو خود اعتمادی کو جہنم دیتا ہے۔ کود اعتمادی انسان کے ہنر کی پرورش کرتی ہے اور
پھر جب ہنر عہد شباب کو چھوتا ہے تو
کامیابی قدموں میں ڈھیر ہوجاتی ہے۔ آپ کو
اپنی ذات پر مکمل یقین اور بھروسہ ہونا چاہیے کہ آپ اپنے مقصد کو پانے کی بھرپور
صلاحیت رکھتے ہیں اور اپنی منزل کے راستہ میں آنے والی ہر مزاحمت اور رکاوٹ کو
عبور کر جائیں گے۔ کامیابی کے راستہ میں متعد دفعہ ناکامیوں کا بھی سامنا کرنا
پڑتا ہے اس قسم کی صورتحال میں گھبرانے کی
ضرورت نہیں جب کبھی ایسا کوئی موقع آئے کہ آپ ناکامیوں سے خوف زدہ ہو کر اپنی راہ ترک کرنے کا سوچ رہے
ہوں تو کسی کامیاب شخص کی کامیابی کے پیچھے چھپی ناکامیوں کی فہرست کا مطالعہ
کرلیں آپ اک نئے عزم اور حوصلہ کے ساتھ دوبارہ کامیابی کے سفر پر نکل کھڑے ہوں گے۔
ابراہم لنکن ، نیلسن میڈیلا اور بل گیٹس جیسی کامیاب ہستیوں کی ہمیں صرف کامیابی
ہی نظر
آتی ہے لیکن اگر ہم ان کے سفر زندگی کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ان سب
نے کامیابی ناکامیوں سے سبق سیکھ کر حاصل کی ہے۔ انہوں نے غلطیوں اور ناکامیوں سے
سیکھ کر کامیابی کی بنیاد ڈالی۔ بل گیٹس کو ہی لے لیجیے۔ آج پوری دنیا کی توجہ کا
مرکز یہ امیر ترین شخص 1955ء میں
امریکہ کے نواحی علاقہ نیسل کے ایک عام
گھرانے میں پیدا ہوا۔ بل گیٹس کی زندگی
میں اہم موڑ اس وقت آیا جب وہ ہاروڈ
یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھااور اس لو یونیورسٹی سے نکال دئیے جانے کے بعد
اپنے ایک ہم جماعت پال ایلن کے ساتھ مل کر اپنے خواب کو پورا کرنے کا ارادہ کیا۔
بل گیٹس کو کمپیوٹر سے عشق تھا اور وہ ہر وقت کمپیوٹر کی دنیا میں مگن رہتا اور
اسی لگاؤ کی وجہ سے وہ تعلیمی میدان میں بہت پیچھے رہ گیا تھا اور اسے یونیورسٹی
سے خارج کردیا گیا تھا۔ بل گیٹس نے اپنے
دوست کے ساتھ مل کر ایک خاص پروجیکٹ پر کام شروع کردیا وہ ایک ایسی خاص زبان ترتیب
دینا چاہتے تھے جس سے کمپیوٹر چلانا آسان ہو۔دونوں دوستوں نے اپنے اس مقصد کے ھصول
کی خاطر دن رات ایک کردیا اور بالآخر اپنی کوشش میں کامیاب ہوگئے اور انہوں نے ایک
ایسی زبان تیار کر ڈالی جس کی بدولت کمپیو ٹر کی مانگ میں بے تحاشہ اضافہ دیکھنے کو
ملا جس سے دونوں سوستوں بل اور پال کا حوصلہ بھی بڑھ گیا انہوں نے اس میدان میں اک
نیا افق کرنے کا پروگرام ترتیب دے ڈالا اور اپنے اس پروگرام کو حتمی شکل دینے کے
لیے وہ میکسیکو چلے گئے۔ یہاں انہوں نے مائیکروسافٹ کارپوریشن کی بنیاد رکھی جس کی چھتری تلے انہوں
نے ایک ایسا سافٹ ویئر تیار کیا جو دنیا کے کونے کونے میں خریدا جانے لگا اور پھر
ایک دن ایسا آیا کہ بل گیٹس دنیا کا امیر ترین شخص بن گیا۔ ذرا سوچیے ایسا کیونکر
ممکن ہوا۔ایسا اس لیے ہوا کہ بل گیٹس نے اپنے اندر کی آواز سنی۔ اپنی اس آواز یعنی
خواب کو پورا کرنے کے لیے اپنی پوری توانائی صرف کردی۔ اگر بل گیٹس نے اپنی آواز
کے بجائے کسی اور کی آواز پر دھیان دیا ہوتا تو آج وہ دنیا کا امیر ترین انسان نہ
ہوتا بلکہ ایک عام سا انسان ہوتا۔لہٰذا یاد رکھیں کوئی لاکھ سمجھائے اپنے خواب پر سمجھوتہ نہ کریں۔ کامیابی
اپنے ہی خواب کے تعاقب میں ہے اور ایک بات یہ بھی یاد رکھیے ہر ناکامی کامیابی کی
جانب ایک قدم بڑھا دیتی ہے اسلئے ناکامی سے نفرت نہیں پیار کیحیے۔ ناکامی تو کامیابی
تک پہنچنے کی سیڑھی ہے۔ چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا ہے کہ غربت کے سبب ایک بچہ کیساتھ اسکول میں امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔ وہ
بچہ یہ تذلیل برداشت نہیں کرپاتا اور محنت کرنے کی ٹھان لیتا ہے اور پھر کشاکش
زمانہ سے ٹھکراتا ایک دن ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں وہ پوری دنیا کیلئے سرمای
اعزاز بن جاتا ہے۔ دنیا آج اس بچہ کو آئن سٹائن کے نام سے جانتی ہے۔
Social Plugin